Monday, August 24, 2009

کراچی:جرائم پر قابو پانے کی کوشش



جرائم کے خاتمے میں پولیس کی مدد کی اپیل

’مجرموں کو پکڑوا کر پائیے انعام شاندار، موبائل کو بنایے جرم کے خلاف ہتھیار‘۔ کراچی میں پولیس نے اس نعرے سے سٹیزن موبائل فورس بنائی ہے جس میں شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس فورس کا حصہ بن کر سنگین جرائم کے خاتمے میں پولیس کے مددگار بنیں۔

’سٹیزن موبائل فورس‘ کی مہم میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون کیمرے سے ٹارگٹ کلنگ یا کسی جرم کی تصاویر یا ویڈیو ریکارڈ کریں اور اسے ملٹی میڈیا پیغام یا ای میل کے ذریعے پولیس یا سی پی ایل سی کو بھیجیں۔ اگر ان کی نشاندہی پر ملزم پکڑا گیا تو حکومت کی جانب سے انہیں پانچ لاکھ روپے تک انعام دیا جائے گا اور ان کا نام صیغہ راز میں رہے گا۔

ان تصاویر یا ویڈیو کے استعمال کے بارے میں کراچی پولیس کے سربراہ وسیم احمد کا کہنا ہے کہ جس وقت کوئی تصویر یا ویڈیو ان تک پہنچے گی تو ملزم کی تصویر نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی سے میچ کرائی جائے گی اور اس عمل سے تمام تفصیلات حاصل ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ پولیس کے پاس موجود ملزمان کے ریکارڈ سے بھی اسے میچ کیا جائے گا اس طرح ملزمان کا سراغ لگانے میں آسانی ہوگی۔

پولیس نے اس فورس کے لیے الگ سیل بنایا ہے جس میں علیحدہ پولیس افسر تعینات ہیں جو ملٹی میڈیا پیغام اور ای میل کے ذریعے آنے والی تصاویر کے سلسلے میں متعلقہ محکموں سے تعاون کریں گے۔

کراچی میں گزشتہ دنوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگز اور سٹریٹ کرائم میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس میں موبائل فون چھیننے کے واقعات بھی شامل ہیں۔ سی پی ایل سی کے مطابق گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں رواں سال کے چھ ماہ کے دوران جرائم میں پندرہ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

یہاں یہ تصور عام ہے کہ پولیس لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی وہ مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اگر کوئی شخص مر بھی رہا ہوتا ہے تو کوئی جاکر گواہی نہیں دیتا وہ کہتا ہے پولیس انہیں تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔ جب تک یہ تصور تبدیل نہیں ہوتا ایسی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوں گی

رانا صبا

سی پی ایل سی کے چیئرمین شرف الدین میمن نے بتایا کہ کراچی میں تیس ہزار کے قریب پولیس فورس موجود ہے ان کی ہر جگہ موجودگی ناممکن ہے، اس صورتحال میں ہر شخص کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پولیس کی مدد کرے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کراچی میں کئی لوگ موبائل ٹیلیفون رکھنے کو بھی سیکیورٹی رسک قرار دیتے ہیں ایسے میں کیا واردات اور ملزمان کی تصاویر بنانا ممکن ہوگا۔ شرف الدین میمن نے کہا ’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اگر کوئی جرم دیکھ رہا ہے اس سے یہ توقع کی جائے کہ وہ اس کی ویڈیو یا تصویر بنائے۔ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے، مگر خود کو محفوظ بناکر یہ کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ صرف تصویر ہی لی جائے اس بارے میں معلومات لے کر وہ بھی پولیس کو فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ شہری جرائم کی روک تھام میں پولیس کی مدد کریں۔‘

کراچی یونیورسٹی کے شعبے کرمنالوجی کی چیئرپرسن رانا صبا سلطان کا کہنا ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ پوری دنیا میں کامیاب ہو رہی ہیں مگر اس کے لیے عوام کا تعاون انتہائی اہم ہے۔

’یہاں یہ تصور عام ہے کہ پولیس لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتی وہ مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اگر کوئی شخص مر بھی رہا ہوتا ہے تو کوئی جاکر گواہی نہیں دیتا اور کہتے ہیں کہ پولیس انہیں تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔ جب تک یہ تصور تبدیل نہیں ہوتا ایسی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہوں گی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص گن پوائنٹ پر کسی کو لے کر کھڑا ہے تو ایسے وقت لوگ اس کی مدد نہیں کرسکتے، لیکن یہ تو کر سکتے ہیں کہ اپنے موبائیل فون سے اس کی تصویر کھینچ لیں۔ اگر عام شہری یہ کریں تو اس سے نیٹ ورکنگ ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے جرائم ختم تو نہیں مگر کم ضرور ہوسکتے ہیں۔

عام شہریوں کی جانب سے فراہم کی گئی تصاویر یا ویڈیو ملزمان کے خلاف عدالت میں بطور ثبوت بھی پیش ہوں گی یا نہیں اس بارے میں حکام کا کوئی واضح مؤقف نہیں۔ کراچی پولیس کے سربراہ وسیم احمد کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر عدالت میں قابل قبول ہوں یا نہ ہوں مگر ملزمان کو پکڑنے کا مؤثر ہتھیار ضرور ہوگا۔

No comments:

Post a Comment